Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


”بیوٹی فل! یہ بریسلیٹ تمہاری کلائی پر کتنا سوٹ کر رہا ہے۔“ وہ ایک جیولری شاپ پر تھے  اعوان نے وہاں سے ایک گولڈ کا بریسلیٹ خرید کر اس کی کلائی پر پہنایا تھا۔ بریسلیٹ میں سرخ یاقوت جگمگا رہے تھے اور وہ اس کی دودھیائی رنگت والی نازک کلائی میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ”رخ! یہ میری چوائس ہے  تمہیں پسند نہیں آئی؟“ اس کو گم صم دیکھ کر وہ پریشانی سے پوچھنے لگا۔
اس ہفتے میں یہ اس کا چوتھا گفٹ تھا اس سے قبل بھی وہ اس کو گولڈ کی جیولری گفٹ کر چکا تھا۔ ”تمہیں تو ایسی جیولری میں کمی نہ ہو گی  تمہارے ڈیڈی اس سے زیادہ قیمتی جیولری تمہیں دلاتے رہتے ہوں گے۔“ وہ مسکرا کر گویا ہوا۔

”نہیں اعوان! یہ میرے لئے زیادہ قیمتی اور اہم ہے  ڈیڈی کی دلائی گئی جیولری کے مقابلے میں۔
(جاری ہے)

میں ان کو زیادہ اہمیت دیتی ہوں۔
“ حواسوں میں آتے ہوئے اس نے جلدی سے کہا اور بریسلیٹ پر ہاتھ پھیر کر مسکرائی۔

”بہت مہربانی رخ!“ وہ نہال ہو گیا۔

”اب چلیں؟ کالج آف ہونے کا ٹائم ہو رہا ہے۔“ وہ رسٹ واچ دیکھتے ہوئے بولی۔

”جانے کی بات مت کیا کرو یار! میری جان جانے لگتی ہے۔“ وہ قیمت دے کر آیا تھا  رخ کے کہنے پر وہ بے چارگی سے بولا تھا۔

”گھر تو مجھے جانا ہی پڑے گا  ذرا بھی لیٹ ہو جاتی ہوں تو ممی پریشان ہو جاتی ہیں اور روز روز لیٹ ہونا ان کو شک میں مبتلا کر دے گا جو میں نہیں چاہتی کہ میرا گھر سے نکلنا بند ہو جائے۔

”میں تمہاری ممی اور ڈیڈ سے ہماری شادی کی بات کرنا چاہتا ہوں۔“ وہ شاپ سے نکل کر پارکنگ کی طرف آ رہے تھے۔

”اتنی جلدی نہیں… ابھی میری تعلیم مکمل نہیں ہوئی ہے۔“

”شادی کے بعد بھی مکمل کر سکتی ہو  کوئی اعتراض نہیں کرے گا میں خود اجازت دوں گا تمہیں۔ میں تمہاری محبت میں اس حد تک ڈوب چکا ہوں کہ تم سے ایک پل کی دوری بھی مجھے بہت بھاری لگتی ہے۔
“ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اس کا ہاتھ پکڑ کر محبت سے لبریز لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ان کو ملتے ہوئے ایک ماہ ہونے کو آیا تھا اوراس دوران وہ کالج کم گئی تھی اور اس کے ساتھ ہر اس جگہ پر گئی تھی جن جگہوں پر جانے کا وہ صرف خواب دیکھ سکتی تھی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ریستوران  ہوٹلز  مال  پکنگ اسپاٹس  وہ اعوان کے ساتھ جا چکی تھی۔ اعوان! جس کی محبت سچی تھی۔
اس نے لاکھوں روپے اس پر اٹھا دیئے تھے  مگر کسی لمحے بھی اس کی نیت میں کھوٹ نہیں آیا تھا  کبھی بھی اس نے اس کی تنہائی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کی محبت پاکیزہ تھی۔ جذبے بے لوث تھے۔ ارادے مضبوط تھے۔

”تم مجھ سے سچی محبت کرتے ہو اعوان!“ کچھ توقف کے بعد وہ بولی۔

”کس طرح گواہی دوں بتاؤ مجھے… کیا ثبوت پیش کروں اپنی محبت کا؟“ کار ڈرائیو کرتے ہوئے وہ خاصا جذباتی ہو گیا تھا۔

”سچی محبت آسانی سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔“

”وہ وقت گزر گیا رخ! جب محبتوں کے راستے میں دیواریں آ جایا کرتی تھیں۔ آج کی محبت ان دیوارں کو گرانا جانتی ہے۔“

”انکل آنٹی کو لندن سے آنے دیں  وہ مجھے قبول کریں گے یا نہیں پھر جویریہ کا کیا رویہ ہوتا ہے  یہ سب مجھے پہلے دیکھنا ہوگا۔“ ماہ رخ نے بات ایک دم ہی پلٹ دی تھی۔

”ممی پپا کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا وہ بہت اچھی طبیعت کے مالک ہیں اور جویریہ تو تم کو بھابی کے روپ میں دیکھ کر بہت خوش ہو گی۔
وہ بہت پسند کرتی ہے تمہیں  گھر میں بھی وہ زیادہ تر تمہارے بارے میں ہی گفتگو کرتی رہتی تھی۔ ہر وقت اس کی زبان پر تمہارا نام ہوتا تھا۔“ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ گاڑی سڑک پر تھی سگنل آف تھا اعوان جھک کر کچھ کہہ رہا تھا کیا کہہ رہا تھا وہ سن نہیں پا رہی تھی۔ کار کے برابر میں سائیکل پر گلفام تھا اور اس کی ایک نظر اتفاقیہ اس پر پڑی تھی اور وہ حیرت سے منہ کھولے اس کی طرف دیکھے گیا تھا  اس کی آنکھوں میں عجیب سی بے یقینی تھی  سائیکل کا ہینڈل اس کے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔
اس کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے سرعت سے چہرا موڑ لیا تھا۔ سن گلاسز نے اس کی آنکھوں کا تمام خوف اور بے چینی کا پردہ رکھ لیا تھا مگر وحشت و دہشت سے وہ پسینے پسینے ہونے لگی تھی  ایک تھرتھراہٹ تھی جو اس کے وجود میں اٹھی تھی۔ برابر میں سائیکل پر موجود گلفام کے چہرے پر وہ تذبذب کے آثار دیکھ چکی تھی کہ وہ اس کو پہچان چکا تھا مگر شاید اس کا ایڈوانس حلیہ اس کو ہچکچاہٹ میں مبتلا کر رہا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کسی بھی لمحے یقین ہونے پر اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لے گا اور پھر…! وہ تماشا بن جائے گی  سارے خواب  تمام آرزوئیں جو بڑی صبر آزما جدوجہد کے بعد اس کی مٹھی میں آنے لگی ہیں سب ریت کی طرح بکھر جائیں گی… پھر اعوان یہ اصلیت جان کر کہ وہ ایک معمولی سے سبزی فروش کی بیٹی ہے  اس سے شادی کرے گا…؟ اور گھر جن میں خصوصاً امی جان تو کسی لمحے کی دیر کئے بنا اس کا نکاح گلفام سے پڑھوا کر اس کی خواہشوں کا قتل کر دیں گی اور اپنی خواہشوں کا قتل  آرزوؤں کی

موت  اس کو کسی طور بھی گوارا نہ تھی۔
پھر شاید تقدیر کو رحم آ گیا تھا۔ سگنل کھلتے ہی وہ سائیکل کہیں بہت دور رہ گئی تھی۔

###

فیاض صاحب نے فائل پر نظریں ڈالتے ہوئے مصروف انداز میں قریب رکھا موبائل اٹھا کر کان سے لگایا تھا جس پر مسلسل بیل بج رہی تھی۔

”یس! فیاض اسپیکنگ!“ انہوں نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا۔

”میں پری کی ماما بول رہی ہوں۔“ یک لخت ان کے ہاتھوں سے فائل چھوٹ گئی تھی۔
یہ آواز  یہ لہجہ  انداز! وہ چاہنے کے باوجود بھی فراموش نہ کر سکے تھے کہ یہ آواز تصور میں آج بھی اپنے پیکر کے ساتھ براجمان تھی۔

”ہیلو…؟“ طویل خاموشی پھر وہ پھر گویا ہوئی تھی۔

”جی!“ ان کا لہجہ دھواں دھواں تھا۔

”پری کو میری محبت سے آپ نے دور کر دیا ہے  کتنی محبت کرتے ہیں آپ اس سے…؟ بہت بڑے بڑے دعوے کئے تھے آپ نے کہ آپ اس کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے  مجھ سے زیادہ خیال رکھیں گے آپ اس کا؟“ مثنیٰ بھرے بادلوں کی طرح برسنے لگی تھیں اور وہ ایک طویل عرصے کے بعد ان کی آواز سن کر عجیب کیفیت کا شکار ہو گئے تھے۔
”کیا خوب خیال رکھ رہے ہیں آپ اس کا… میری بیٹی کو کمپلیکس کا شکار کر رہے ہیں؟ آپ کی بیٹی کی منگنی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ان بچیوں کی ماں ان کے پاس ہے اور میری پری کو اس لئے نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ وہ ماں کی ممتا سے دور ہے  اس کی ماں اس کے پاس نہیں ہے؟“

”ایسی بات نہیں ہے  آپ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں  پری مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے پھر اماں جان کی تو پری میں جان ہے۔
تقدیریں اوپر سے بنتی ہیں  حکم بھی وہیں سے ہوتا ہے جب اس کا وقت آئے گا تو کوئی روک نہیں سکے گا۔“ وہ بے حد دھیمے لہجے میں بات کر رہے تھے۔

”تقدیر اوپر سے بنتی ہے مگر تدبیر تو زمین پر رہ کر بندوں کو کرنی پڑتی ہے  بغیر تدبیر کے تقدیر نہیں بنتی ہے۔ اگر آپ سے پری کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے تو اس کو میں رکھنے کیلئے تیار ہوں۔ آپ پھر اس سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔
مثنیٰ کے لہجے میں سرد مہری و غصہ تھا۔

”نہیں… نہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ میں پری کو خود سے جدا نہیں کر سکتا  وہ میری روح ہے  میری زندگی ہے وہ… میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔“ وہ ایک دم تڑپ کر گویا ہوئے۔

”میں آپ کو آخری وارننگ دے رہی ہوں  پری کے ساتھ میں کوئی نا انصافی برداشت نہیں کروں گی۔“ دوسری طرف سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔
انہوں نے گہرا سانس لے کر موبائل کو ٹیبل پر رکھا تھا اور کرسی کی پشت گاہ سے سر ٹکا لیا۔ ان کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ وہ سختی سے ہونٹوں کو دانتوں سے بھینچے ہوئے تھے۔

کتنی دعائیں کی تھیں کہ اب جب وہ ان کی زندگی سے نکل ہی گئی ہیں تو پھر کبھی ان کا ان سے سامنا نہ ہو پائے کہ وہ برداشت نہ کر پائیں گے اور یہی ہوا تھا… اس آواز نے ان کے درد کو حد سے سوا کر دیا تھا۔
بچھڑنے کا احساس کچھ زیادہ ہی اس وقت مضطرب کرنے لگا تھا۔

میں اداس راستہ ہوں شام کا‘ مجھے آہٹوں کی تلاش ہے

یہ ستارے سب ہیں بجھے بجھے‘ مجھے جگنوؤں کی تلاش ہے

وہ جو ایک دریا تھا آگ کا‘ سبھی راستوں سے گزر گیا

ہمیں کب سے ریت کے شہر میں‘ بارشوں کی تلاش ہے

وقت و حالات کبھی ہمارے احساسات و جذبات کو کس طرح الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں جن لوگوں سے ہم ملنے کی  ان کو پانے کی دعائیں کرتے ہیں تو کبھی زندگی کروٹ بدلتی ہے اور وہ دعائیں بددعا کی طرح لگنے لگتی ہیں۔

وہ اٹھ گئے تھے  طبیعت میں ایسی ہی وحشت ابھری تھی کہ وہ سراسیمہ ہو گئے تھے۔

###

”مما! میں راحیل سے ملنا چاہتی ہوں۔“ دوسرے ہی دن وہ ان سے مخاطب ہوئی تھی جب وہ لاکر کھول رہتی تھیں۔

”تمہارے سر سے ابھی راحیل کا بھوت اترا نہیں ہے  اتنا کچھ ہو گیا ہے پھر بھی تم ایسی بات کر رہی ہو؟“ وہ لاکر سے توجہ ہٹا کر اس کی طرف متوجہ ہوئی تھیں  جو بڑی ہٹ دھرمی سے ان کے سامنے کھڑی بے خوفی سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”کیا چاہتی ہو آخر تم؟ جو معاملہ خاموشی سے دب گیا ہے اس کی خبر سب کو ہو جائے؟ تمہارا باپ  تمہاری دادی زندہ نہیں چھوڑیں گے تمہیں  اپنا انجام تم سوچ لینا اچھی طرح… ان کے سامنے میری ایک نہیں چلنے والی۔“

”مجھے انجام کی پروا نہیں ہے  کیا کریں گے یہ لوگ…؟ جان سے مار دیں گے تو مار دیں۔ راحیل کے بغیر زندگی ویسے بھی موت کے مترادف ہے۔

”اوہ میرے خدایا! عائزہ! تم جانتی ہو راحیل کس کردار کا حامل ہے؟“ انہوں نے نرمی سے تھام کر اس کو بیڈ پر بٹھایا تھا پھر دروازہ اندر سے لاک کرکے اس کے قریب آکر بیٹھ گئی تھیں۔“ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو میری جان! جب ہم کسی سے دوستی کرتے ہیں تو پہلے اس کی خامیاں دیکھتے ہیں  مزاج پرکھتے ہیں پھر دوستی کرتے ہیں اور شادی تو زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے یہاں تو ذرا ذرا سی باتوں کو باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے۔
لڑکا  خاندان  کردار سب خصوصیات بہترین ہوں تو رشتہ ہوتا ہے ورنہ یہ تعلق نہیں جڑتے ہیں۔“ وہ نرم خوئی سے کسی کوڑھ مغز بچے کی مانند اس کو سمجھا رہی تھیں۔

”مما! کیا کمی ہے راحیل میں…؟ وہ ہینڈسم ہے  کسی اچھی فیملی سے اس کا تعلق ہے اور جاب بھی بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں کرتا ہے…“

”کان کھول کر سنو  مرد کا خوبصورت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا  صرف اس کا چہرہ دیکھ کر زندگی نہیں گزاری جا سکتی ہے۔
مرد کو خوبصورت اس کی جیب اور مضبوط کردار بناتے ہیں اور راحیل کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔“ وہ اس کو ضد پر اڑے دیکھ کر غصے سے بولیں۔ ”راحیل کی ماں نے جب اس کو جنم دیا تو وہ ان میرڈ تھی کسی امیر زادے سے دولت حاصل حاصل کرنے کیلئے اس نے ایسا کیا پھر وہ راحیل کو اپنی بوڑھی ماں کے حوالے کرکے کسی آدمی کے ساتھ گھر سے فرار ہو گئی تھی اس کے بعد اس کی کوئی خبر ہی نہیں ملی کہ وہ کہاں گئی…؟“

”مما! اس میں راحیل کا کیا قصور ہے؟ اپنی ماں کے کردار کا وہ ذمے دار نہیں ہے تو پھر اس کو کیوں سزا ملے؟ یہ انصاف نہیں ہے۔

”تم سمجھنے کی کوشش تو کرو عائزہ! وہ اسی جگہ ہی جوان ہوا ہے کون نہیں جانتا اس کو یہاں پر…؟ تم سے پہلے بھی محبت کا جھانسہ دے کر وہ کتنی لڑکیوں کی زندگی تباہ و برباد کر چکا ہے۔ شکر ہے کسی نیکی کے عوض تم اس کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی بچ گئی ہو  طغرل کسی فرشتے کی طرح ہماری زندگی میں آیا ہے۔“

”طغرل؟ ہونہہ! نام مت لیں ان کا میرے سامنے… نفرت ہے مجھے ان سے… یہاں آ کر بڑے نیک فرشتے بن رہے ہیں  آسٹریلیا میں رہ کر کیا کیا گل نہیں کھلائے ہوں گے انہوں نے یہ کون جانے… یہاں آ کر سب ہی اپنی پارسائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہوتا ہے۔ کالک رسوائی کی دامن کے کسی نہ کسی حصے پر ضرور لگی ہوتی ہے سب کے  جو کسی کی نظر آتی ہے اور کسی کی نہیں۔“

”اس بحث سے مقصد کیا ہے تمہارا؟“ وہ پریشانی سے گویا ہوئی تھیں۔ عائزہ کے بگڑے تیور ظاہر کر رہے تھے وہ کسی سمجھوتے پر تیار ہے نہ ہو گی۔

”مجھے راحیل سے ملنا ہے کیونکہ اس لاکر کی تمام جیولری اور رقم میں راحیل کو دے چکی ہوں  یہ لاکر خالی ہے۔“ اس نے گویا دھماکہ کیا تھا۔

   2
0 Comments